ماں سے فریاد
ــــــــــــ ــــــــــــ ــــــــــــ ـــــــ

ماں ترے بن ہوں بے چین و بیقرار
کرتا ہوں بیٹھ کر اب دکھوں کا شمار

عمر بھر کا رونا ٹھہرا مقدر میرا
ایک ہوں میں اور دکھ ہیں ہزار

خوشیاں تھیں جتنی وہ سب روٹھ گئیں
غم آ رہے ہیں ملنے قطار در قطار

جھوٹ کہوں یا سچ تھا تجھ کو یقین
کون کرے گا اب میرے کہے کا اعتبار

مار ڈالے گی مجھے دنیا کی بے اعتنائی
دے سکے گا نہ ہر گز کوئی تجھ ساپیار

رہے گا کون میری آمد کا منتظر
نگاہ اٹھا کر راہ کون دیکھے گا بار بار

تو نہیں تو اجڑ گیا ہوں مثل خزاں
لیکر ہوئی رخصت تو میری زندگی کی بہار

اس امید پہ کہ شاید تم لوٹ آو
سر راہ بیٹھ کر کرتا ہوں تیرا انتظار

زلزلے نے شکیل کتنے بچوں کی مائیں چھین لیں
اس بات نے کیا ہے سارا عالم سوگوار!

شکیل اے چوھان